I had to go out for my better future and to make money. I planned to go to London. Baba tried to explain to me in every possible way that "sons migrate only for a big purpose. You want to migrate to earn a living … the price of which is not even equal to the broken feather of a mosquito".
Father, don't leave your identity. Pakistan is our identity. Even a tree always changes its leaves, not its roots. But I did not believe. Baba said goodbye to me at the airport. Son, I am old now. Old age is the name of the exile of the body. There is no difference between the life of a leaf and the lines written on the wall. One rain is enough to erase them.
مجھے اپنے بہتر مستقبل کے لئے اور پیسہ کمانے کے لئے باہر جانا تھا. میں نے لندن جانے کا پروگرام بنایا۔
بابا نے مجھے ہر ممکن طریقے سے سمجھانے کی کوشش کی کہ "بیٹا ہجرت صرف بڑے مقصد کے لئے کرتے ہیں۔ تم دنیا کمانے کے لیے ہجرت کرنا چاہتے ہو۔۔۔ جس کی قیمت مچھر کے ٹوٹے ہوئے پر کے برابر بھی نہیں".
پتر اپنی پہچان چھوڑ کر مت جاؤ۔ پاکستان ہماری پہچان ہے درخت بھی ہمیشہ اپنے پتے تبدیل کرتا ہے جڑیں نہیں۔
مگر میں نہ مانا۔
ایئرپورٹ پر مجھے رخصت کرتے ہوئے بابا بولے؛
بیٹا اب میں بوڑھا ہو گیا ہوں ۔بڑاپا جسم کی جلا وطنی کا نام ہے۔ پتر بڑھاپے کی زندگی اور دیوار پر لکھی لکیروں میں کوئی فرق نہیں ہوتا ان کو مٹانے کے لیے ایک بارش ہی کافی ہوتی ہے۔
پھر ضبط کا مضبوط حصار توڑ کر کر کچھ آنسو میرے باپ کی آنکھوں سے بہہ نکلے۔
مجھے بولے بیٹا پچھتاوا بقیہ عمر ضائع کر دیتا ہے اور پھر آدمی کو خشک سمندر کی لہروں کا شور عمر بھر سونے نہیں دیتا ۔
میرا ہاتھ پکڑ کر بولے؛
سنو تم خواب ہو میرے
سنو تم خواب مت ھونا
پھر مجھے گلے لگا کر کر میری طرف دیکھے بغیر ایئرپورٹ سے باہر نکل گئے۔ اور پھر میں یہاں لندن میں دنیا کی دلدل میں گم ہوگیا۔ ایک گوری سے شادی کے بعد مجھے یہاں کی نشنیلٹی بھی مل گئی تھی۔
کئی سال تک بابا سے رابطہ نہ ہو سکا ۔ سال پہلے ان کا خط آیا تھا۔ لکھا تھا بیٹا اب تم پاکستان آئے بھی تو مجھے دیکھ کر تمہیں مایوسی ہو گی۔
اب تم میرے چہرے کو دیکھ کر ڈر جاؤ گے کیونکہ اب اس پر سرسوں کی پیلی رت اتر چکی ہے۔ تھوک کے خون سے یقینا تمہیں نفرت ہوگئی مگر اب یہ طبیب کے بس میں بھی نہیں رہا۔
اب تم مجھ سے ٹوٹ کر پیار نہیں کر سکو گے اور یقینا اپنی بیوی بچوں کے پاس پلٹ جاؤ گے ۔بیٹا مجھے تیری جدائی نے مار دیا ہے ورنہ میں اپنے مرنے تک جینا چاہتا تھا۔ بیٹا میری آنکھوں کا دریا سوکھ گیا ہے ۔
افسوس میرے پاس اتنا وقت بھی نہیں تھا کہ دو جملوں کا ہی سہی خط کا جواب دے دیتا۔
میں ایک دن اپنے گھر میں بیٹھا اپنی بے حساب دولت کا حساب کر رہا تھا کہ میرا ایک پرانا دوست مجھ سے ملنے آ گیا پوچھنے لگا کب سے پاکستان نہیں گئے۔۔؟
میں نے کہا 11 برس بیت گئے ہیں وقت ہی نہیں ملا پاکستان جانے کا۔
سوچ رہا ہوں اگلے برس جاؤں گا بابا سے بھی ملنا ہے۔
اس نے حیرانی سے میری طرف دیکھا کہنے لگا۔۔ تم پاگل ہو کیا تمہیں کچھ بھی معلوم نہیں۔۔؟
کیا تم اپنے باپ کے مرنے پر بھی پاکستان نہیں گئے۔۔؟
تم کیا کہہ رہے ہو۔۔؟ بابا مر گئے۔۔؟ میری چیخ نکل گئی۔۔ مگر مجھے کسی نے بتایا کیوں نہیں۔۔؟
ان کی وصیت تھی میرے بیٹے کو اطلاع مت دینا اسے آنے میں تکلیف ہوگی اور پھر مجھے یوں لگا جیسے بازی پلٹ گئی ہے اور میں اپنا وجود بھی ہار گیا ہوں۔
بابا کے الفاظ پگلے ہوئے سیسے کی طرح میرے کانوں میں گونجنے لگے۔۔
بیٹا مجھے تیری جدائی نے مار دیا ہے ورنہ میں اپنے مرنے تک جینا چاہتا تھا تھا۔
بیٹا پچھتاوا بقیہ عمر ضائع کردیا کرتا ہے اور پھر آدمی کو خشک سمندر کی لہروں کا شور عمر بھر سونے نہیں دیتا۔۔
سنو تم خواب ہو میرے
سنو تم خواب مت ھونا
میں نے اپنی نشنیلٹی اور پاسپورٹ اور کچھ ضروری سامان اٹھایا اور بیوی بچوں کو بتائے بغیر ایئرپورٹ پر پہنچا اور پہلی فلائٹ سے لاہور پہنچا۔ وہاں سے سیدھا عوان ٹاؤن قبرستان پہنچا۔۔
میں نے بابا کی قبر کو بہت تلاش کیا مگر مجھے نہ ملی۔ میں دوڑ کر گورکن علم دین کے پاس پہنچا اور میں نے اس سے پوچھا بابا کی قبر کہاں ہے۔۔؟
علم دین میرے ساتھ چلا آیا اس نے بھی بہت تلاش کیا مگر قبر نہ ملی علم دین نے مجھ سے پوچھا اچھا قبر کی پہچان کیا ہے ۔۔؟
مجھے بابا کی بات یاد آگئی بیٹا پہچان کی ضرورت تو قبروں کو بھی ہوتی ہے تم ملک کی بات کرتے ہو۔۔
میں نے علم دین سے کہا علم دین میں آج پہلی بار آیا ہوں مجھے نہیں معلوم میرے باپ کی قبر کیسی ہے۔ علم دین پھر تلاش میں نکل گیا۔ میں نے وہی قبرستان میں ایک گڑھا کھودا اور اور اپنی غیر ملکی شہریت اور اپنا پاسپورٹ اس میں دفن کر دیا کیا اور اس پر مٹی ڈال دی۔
پھر میں نے غور سے دیکھا اس گھڑے کے ساتھ ہی میرے باپ کی قبر ابھر آئی تھی۔
میں نے کتبہ دیکھا لکھا تھا
محمد بحش خان نظامی
تاریخ پیدائش 20 فروری انیس سو اٹھائیس تاریخ وفات۔۔۔۔......۔
علم دین چکر لگا کر واپس آ گیا تھا میں نے کہا یہ قبر میرے باپ کی ہے مگر علم دین اس پر تاریخ وفات کیوں نہیں لکھی۔۔؟ علم دین نے قبر کی طرف دیکھا اور پھر افسوس اور نفرت سے میری طرف دیکھا اور خاموش رہا۔
پھر کچھ ہی دیر بعد بولا مجھے تاریخ تو یاد نہیں غالبًا چار مہینے پہلے کی بات ہے جب میں نے یہ قبر بنائی تھی مگر اس پر کتبہ نہیں تھا پھر ایک رات جب رات کو چکر لگانے آیا تو انتہائی خوبصورت انسان جس کا چہرہ نور سے چمک رہا تھا اس قبر پر کتبہ نصب کر رہا تھا وہ کوئی انسان نہ تھا شاید کوئی فرشتہ تھا۔
یہی سوال میں نے بھی اس سے کیا تھا اے اجنبی اس کتبے پر تاریخ وفات کیوں نہیں لکھی۔۔؟ وہ اجنبی بولا ایسے لوگ مرتے نہیں صرف انتقال کرتے ہیں۔ یہ لوگ اپنے پیاروں کے انتظار میں زندہ رہتے ہیں ابھی صاحب مزار کے بیٹے نے باہر سے آنا ہے ہے جس دن وہ آئے گا اسی دن صاحب مزار کا انتقال ہوگا۔
تاریخ وفات اسی دن لکھی جائے گی گئی اور پھر میں نے تاریخ وفات کے آگے لکھا 20 اکتوبر 1994
اور پھر میں ساری رات قبر کر بیٹھا روتا معافی مانگتا رہا مگر قبر سے صرف ایک ہی آواز آتی رہی بیٹا مجھے تیری جدائی نے مار دیا ہے ورنہ میں اپنے مرنے تک جینا چاہتا تھا۔
جدائی اور موت ایک ہی چیز کے دو نام ہیں ہجر کا دکھ دیکھنا ہو تو حضرت یعقوب کی آنکھوں کی طرف دیکھو جن کی روشنی اپنے فرزند حضرت یوسف کی یاد میں روتے روتے چھین گئی
اور ہجر ایک ایسی اذیت ناک موت ہے جس میں جان سے جاتے جاتے بھی عمر لگ جاتی ہے
اور سنو تم خواب ہو میرے
سنو تم خواب مت ہونا
لاہور کی گلیوں میں جہاں کبھی میلی چادر اوڑھے ساغر پھرتا تھا اب وہاں ایک ملنگ بے تحاشہ بڑے ہوئے بالوں اور میلی چادر لیے پھرتا نظر آتا ہے
رات ہوتی ہے تو ساغر کی طرح کسی بھی فٹ پاتھ پر لیٹ جاتا ہے مگر آج تک اسے کسی نے سوئے ہوئے نہیں دیکھا۔ صبح ہوتے ہی بازار میں چلنا شروع کر دیتا ہے جہاں کہیں بوڑھا نظر آتا ہے اس کو روک کر سلام کرتا ہے اس کا ہاتھ پکڑ کر چومتا ہے اور کہتا ہے اپنے مرنے تک ضرور زندہ رہنا اور اپنے بیٹے کو باہر مت جانے دینا اس کا پاسپورٹ پھاڑ دینا
اور پھر سسکتا ہوا آگے بڑھ جاتا ہے اور پھر کربناک لہجے میں گانے لگتا ہے
سنو تم خواب ہو میرے
سنو تم خواب مت ہونا ۔.................
کتاب گونگے کا خواب
افسانہ "سنو تم خواب مت ہونا" سے اقتباس
Post a Comment