He looked carefully at the marble pillar. It was the tombstone of Sahibzada Sahib. Above was written "Taste the soul of Alamut". Below was the name of Sahibzada Naseer-ud-Din Shah engraved with a bold pen. Beneath it was written in a single line the date of birth 1893 and the date of death 1952. Omar wrote two years in the brackets. And below was the lion. The flowers were displayed for two days in spring. Regret is on those buds that have withered openly.
میں نے سنگ مرمر کی سل کو دھیان سے دیکھا ۔ وہ صاحب زادہ صاحب کی قبر کا کتبہ تھا ۔ اوپر" کل نفساً ذائقہ الموت " لکھا تھا ۔ نیچے جلی قلم سے صاحب زادہ نصیر الدین شاہ کا نام کھدا تھا ۔ اس کے نیچے ایک ہی سطر میں تاریخ پیدائش 1893 ء اور تاریخ وفات 1952 ء لکھی تھی ۔
خطوط وحدانی میں عمر دو سال لکھی تھی ۔ اور نیچے شعر تھا
پھول تو دو دن بہار جان فزا دکھلا گئے
حسرت ان غنچون پہ ہے جو بن کھلے مرجھا گئے
میں نے صاحب زادہ صاحب کی عمر کا حساب دی گئی تاریخوں سے لگایا تو ان کی عمر انسٹھ سال بنی ، لیکن خطوط وحدانی میں دو سال لکھی تھی ۔ میں اس بھل ( بھول ) سے بوکھلا گیا اور تھوڑی دیر رک کر بولا " حضور سنگ ساز مورکھ پنے سے عمر غلط لکھ گیا ہے صاحب زادہ صاحب کی عمر انسٹھ سال بنتی ہے اور یہ شعر بھی اس نے بے جوڑ چلا دیا "۔
وہ تھوڑی دیر خموش رہ کر بولے، برخوردار نصیرالدین نے دو برس کی عمر کے بعد پورے لفظ اور پورے فقرے بولنے شروع کر کے سب کو حریان کر دیا ۔ سوہنا کلام تے سوہنی گفتار ۔ جو بھی اس کیاں باتاں سن دا، دلوں بجانوں عاشق موہت ھو رہندا ۔ لاڈ لڈاندا۔ پیراں ھیٹھ ھتھ رکھدا ۔ سجن سہیلیاں گودی گودی چائے پھرتے ۔ بہت راضی رہتا ، خوش ہوتا ، اڑیاں کردا ۔
پر لاڈ پیار ہور عشق دلار نے برخوردار کی ترقی روک لئی ۔ درجات بند ہوگئے ۔ ضدی،خودغرض ، خود پسند ہو کر رہ گیا ۔ حق سچ کوں چھڈ کے چیزاں وستاں کیاں محبتاں ماں نبھیا گیا ۔ اس فقیری ڈیرے بدولت سرکارے دربارے مل بندھن کر لیا ۔ جائداداں بنانا شروع کر دیاں ۔ مال گھاؤ گھپ کر لیے ۔ اپنے آپ اور اپنی ذات کا بندہ بن گیا ۔ مخلوق خدا کنوں اڈھو کے صرف اپنی سیوا کرن لگ گیا ۔ اناٹھ سال عمر ضرور پائی پر پہلے دو سالاں کنوں اگے نہ جا سکیا ۔ ساری عمر اینویں ئی اکارت گئی ، اینویں ئی برباد ہوئی ۔ اصل عمر نصیر الدین شاہ ھوراں دی دو سال ئی بنتی اے ، جد اس نے گل کلام شروع کیا اس کے پچھے تے سب ذات ئی ذات ئے ۔ انا ئی انا اے ۔ غرض ئی غرض اے ۔ مرحوم دو سال تے اگے نہ اپڑ سکیا ۔
اس پتھر تے اے عمر بھی میں درج کری ئے اور ایہہ شعر بھی میں ئی لکھوایا ئے ۔ تو ئی بتا صاحب میرے کہ ٹھیک ئے کہ نہیں ۔
میں بے پران ، بے دھڑا ہو کے بیٹھا رہیا ۔ جواب کی دیتا اور بول کے کیا کر لیتا ۔ حضرت صاحب نے بولنے جوگا چھڈیا ہی نہیں تھا ۔
اشفاق احمد پھلکاری صفحہ 15 باب رکی ہوئی عمر
میں یہ نہیں بتانا چاہتی کہ کوئی شخص شاعر کیسے ہو جاتا ہے ۔ میں تو بس یہ پوچھنا چاہتی ہوں کہ کبھی تم نے گرمیوں کی دوپہروں میں آسمان کا رنگ دیکھا اور فاختہ کی لمبی، نڈھال آواز سنی ہے ۔ ۔ ۔ گھو گھو ۔ ۔ ۔ گھو ۔ خزاں کی سہ پہروں میں، جنگلوں میں سنسناتی ہواؤں کو محسوس کیا اور درختوں کی کراہیں سنیں ۔ سرما کی گہری سیاہ غم ناک شامیں، گھر کے پچھلے باغ میں تنہا بیٹھ کر گزار دیں ۔ رات کے پہلے پہر، ڈار سے بچھڑ
جانے والی کونج کی چیخ سنی ہے ۔
آخری پہر کبھی چونک کر جاگے اور اپنے سر پر کسی نادیدہ پرندے (یا فرشتے کے پروں کی پھڑپھڑاہٹ محسوس کی ہے ۔ صبح ِ کاذب کے وقت، فلک پر ایک نقرئی غبار دیکھا ہے ۔ صبح ِ صادق کے وقت، چڑیوں کی حمد کے ساتھ، ملحقہ مسجد سے ابھرتی '' فاتحہ'' یا ''الرحمٰن '' سنی ہے؟ ۔ اگر نہیں ۔ تو تم مجھے کبھی نہیں جان سکتے.!
ثمینہ راجہ
****************************
خواتین و حضرات ! گاڑی کا وہ میکینک کام کرتے کرتے اٹھا اس نے پنکچر چیک کرنے والے ٹب سے ہاتھ گیلے کے اور ویسے ہی جا کر کھانا کھانا شروع کر دیا -
میں نے اس سے کہا کہ الله کے بندے اس طرح گندے ہاتھوں سے کھانا کھاؤ گے تو بیمار پڑ جاؤ گے - ہزاروں جراثیم تمہارے پیٹ میں چلے جائینگے ، کیا تم نے کبھی اس طرح کی باتیں ڈیٹول یا صابن کے اشتہار میں نہیں دیکھیں ،
تو اس نے جواب دیا کہ " صاحب جب ہم ہاتھوں پر پہلا کلمہ
پڑھ کر پانی ڈالتے ہیں تو سارے جراثیم خود بہ خود مر جاتے ہیں اور جب بسم للہ پڑھ کر روٹی کا لقمہ توڑتے ہیں تو جراثیموں کی جگہ ہمارے پیٹ میں برکت اور صحت داخل ہو جاتی ہے -
مجھے اس مکینک کی بات نے ہلا کر رکھ دیا یہ تو اس کا توکل تھا جو اسے بیمار نہیں ہونے دیتا تھا - میں اس سے اب بھی ملتا ہوں - اتنے سال گزر جانے کے بعد بھی وہ مجھ سے زیادہ صحت مند ہے -
از اشفاق احمد زاویہ ٣ خدا سے زیادہ جراثیموں کا خوف
****************************
"میں رحمن کے بندے کو خوش کرنے کے کے لئے رحمن کو ناراض نہیں کرسکتی تھی..میں جھوٹ نہیں بول سکتی تھی..."
اسکی بڑی بڑی آنکھیں بھیگ گیں..
"جو جتنا اچھا جھوٹ بولتا ہے بہارے! یہ دنیا اسی کی ہوتی ہے "
" لیکن پھر اسکی آخرت نہیں ہوتی' یہ آیشے گل کہتی ہے "
( نمرہ احمد کے ناول " جنّت کے پتے" سے)
****************************
میرے پاس ولایت اور یہاں کی بے شمار ڈگریاں ہیں ۔ لیکن اس سب علم اور ڈگریوں کے با وصف میرے پاس وہ کچھ نہیں ہے جو ایک پینڈو مالی کے پاس ہوتا ہے ۔ یہ اللہ کی عطا ہے ۔ بڑی دیر کی بات ہے ہم سمن آباد میں رہتے تھے ، میرا پہلا بچہ جو نہایت ہی پیارا ہوتا ہے وہ میری گود میں تھا ۔ وہاں ایک ڈونگی گراؤنڈ ہے جہاں پاس ہی صوفی غلام مصطفیٰ تبسم صاحب رہا کرتے تھے ، میں اس گراؤنڈ میں بیٹھا تھا اور مالی لوگ کچھ کام کر رہے تھے۔ ایک مالی میرے پاس آ کر کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا کہ ماشاءاللہ بہت پیارا بچہ ہے ۔ اللہ اس کی عمر دراز کرے ۔ وہ کہنے لگا کہ جی جو میرا چھوٹے سے بڑا بیٹا ہے وہ بھی تقریباً ایسا ہی ہے ۔ میں نے کہا ماشاء اللہ اس حساب سے تو ہم قریبی رشتیدار ہوئے ۔ وہ کہنے لگا کہ میرے آٹھ بچے ہیں ۔ میں اس زمانے میں ریڈیو میں ملازم تھا اور ہم فیملی پلاننگ کے حوالے سے پروگرام کرتے تھے ۔ جب اس نے آٹھ بچوں کا ذکر کیا تو مین نے کہا اللہ ان سب کو سلامت رکھے لیکن میں اپنی محبت آٹھ بچوں میں تقسیم کرنے پر تیار نہیں ہوں ۔ وہ مسکرایا اور میری طرف چہرہ کر کے کہنے لگا
" صاحب جی محبت کو تقسیم نہیں کیا کرتے ۔ محبت کو ضرب دیا کرتے ہیں ۔ "
وہ بلکل ان پڑھ آدمی تھا اور اس کی جب سے کہی ہوئی بات اب تک میرے دل میں ہے ۔
میں اکثر سوچتا ہوں کہ واقعی یہ ضروری نہیں ہے کہ کسی کے پاس ہنر یا عقل کی ڈگری ہو ، یہ ضروری نہیں کہ سوچ و فکر کا ڈپلومہ حاصل کیا جائے ۔
اشفاق احمد زاویہ 2 ان پڑھ سقراط صفحہ 239
Post a Comment