Zindagi Ki Achi Batain In Urdu Text - آج کی اچھی باتیں

Oct 6, 2022


؎ﻭﻗﺖ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮪ ﺳﺐ ﭨﮭﯿﮏ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺟﺎﺗﺎ،
ﺑﺲ ﮨﻢ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺍﭘﻨﺎ ﺩﮐﮪ ﮐﮩﻨﺎ ﭼﮭﻮﮌ ﺩﯾﺘﮯ
ﮨﯿﮟ۔۔۔۔۔۔ !!

************

سب سے زیادہ تکلیف اس وقت ہوتی ہے جب آپ کو اس بات کا احساس ہو کہ آپ کی ذات اس شخص کے لئے اتنی اہمیت کی حامل نہیں ہے جس کے لئے آپ اپنی ہر خوشی قربان کرسکتے ہیں .

************

ﮐﭽﮫ ﺗﮑﻠﯿﻔﯿﮟ ﺍﯾﺴﯽ ﮬﻮﺗﯽ ﮬﯿﮟ ﺟﺲ ﭘﺮ ﻣﻌﺎﻑ ﺗﻮ ﮐﯿﺎ ﺟﺎ ﺳﮑﺘﺎ ﮬﮯ ﻣﮕﺮ
 ﺩﻭﺑﺎﺭﮦ ﺗﻌﻠﻖ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮐﮭﺎ ﺟﺎﺳﮑﺘﺎ___!

urdu-sad-quotes

ماضی ایک بھنور ہے۔ اگر تم نے اسے اپنے حال پر غالب آنے کی اجازت دے دی____ تو وہ تمہیں نگل جائے گا۔!

************

سگے رشتوں میں حسد نہ ہوتا تو حضرت یوسف علیہ السلام کو کنویں میں نہ لٹکایا جاتا_____لیکن اس میں سبق یہ ہے کہ جس سے حسد کیا جاتا ہو اور وہ صبر سے کام لے تو کیسے نوازا جاتا ہے اور انسان کو سگے رشتوں سے زیادہ اس کی ضرورت ہوتی ہے جو اپنے بندوں کو کبھی اکیلا نہیں چھوڑتا۔!

************

سمجھدار ,عقل مند یا پھر ذمہ دار ہونے کی بہت قیمت چکانی پڑتی ہیں پسندیدہ چیزوں سے دستبردار بھی ہونا پڑتا ہے!

Urdu-Beautiful-Quotes

یہ مُلک لاکھوں جانوں کی قربانی سے بنا ہے۔ قوم کو ایک اعلیٰ زندگی عطا کرنے کے لیے یہ مُلک حاصل کیا گیا— لیکن افسوس! چند ہوس پرست‘ جونکوں کی طرح اِس کا خون چوس رہے ہیں — کسی غریب کو کیا فرق پڑتا ہے ‘اگر اُس پر ہندو ظلم کرے یا اُس پر مسلمان ظلم کرے۔غور کرنے کا وقت ہے—سنجیدگی اختیار کرنے کا لمحہ ہے۔
 اگر ضمیر کی آواز پر کان نہ دھرا تو خاکم بدہن— مسجدِ قرطبہ— خدا نہ کرے۔ضمیر زندہ رہا تو فرد زندہ رہا۔فرد زندہ ہے تو قوم زندہ ہے اور قوم زندہ ہے تو مُلک سلامت ہے۔
 خدا ہمیں بیدار بخت اور بیدار ضمیر بنائے— مُردہ ضمیروں نے ہمیں پہلے ہی بہت نقصان پہنچایا ہے— مُردہ ضمیر وہ ہے جو مُلک و قوم کے نقصان کی پرواہ کیے بغیر اپنی منفعت کی فکر کرے۔ اگر معاشرے میں باضمیر پیدا ہو گئے تو مُردہ ضمیر ویسے ہی رُوپوش ہو جائیں گے۔
کتاب: حرف حرف حقیقت
مضمون: ضمیر کی آواز
 حضرت واصف علی واصفؒ

************

سقراط کی درس گاہ 
کا صرف ایک اصول تھا “ اور وہ تھا  “برداشت “ یہ لوگ ایک دوسرے کے خِیالات تحمّل کے ساتھ سُنتے تھے، یہ بڑے سے بڑے اختلاف پر بھی ایک دوسرے سے الجھتے نہیں تھے.. 
سقراط کی درسگاہ کا اصول تھا 
اس کا جو شاگرد ایک خاص حد سے اونچی آواز میں بات کرتا تھا 
یا پھر دوسرے کو گالی دے دیتا تھا یا دھمکی دیتا تھا یا جسمانی لڑائی کی کوشش کرتا تھا اس طالب علم کو فوراً اس درسگاہ سے نکال دیا جاتا تھا۔ سقراط کا کہنا تھ برداشت سوسائٹی کی روح ہوتی ہے، سوسائٹی میں جب برداشت کم ہوجاتی ہے تو مکالمہ کم ہوجاتا ہے اور جب مکالمہ کم ہوتا ہے تو معاشرے میں وحشت بڑھ جاتی ہے۔
بقول سقراط اختلاف دلائل اور منطق پڑھے لکھے لوگوں کا کام ہے، 
یہ فن جب تک پڑھے لکھے عالم اور فاضل لوگوں کے پاس رہتا ہے 
اُس وقت تک معاشرہ ترقی کرتا ہے ۔۔ لیکن جب مکالمہ یا اختلاف 
جاہل لوگوں کے ہاتھ آجاتا ہے تو پھر معاشرہ انارکی کا شکار ہوجاتا ہے ۔۔ 
سقراط کہتا تھا  :
"اور عالم اُس وقت تک 
عالم نہیں ہوسکتا جب تک اس میں برداشت نہ آجائے، وہ جب تک ✋ ہاتھ اور بات میں فرق نہ رکھے ----


Post a Comment

© Urdu Thoughts.